غزل (رخ سے نقاب)
غزل
ذرا رخ سے پردہ ہٹا کر ادھر بھی دیکھ
آؤں گا تمہیں نظر تو جدھر بھی دیکھ
بہت ناز کرتے تھے نا تم اپنی وفاؤں پر
میری وفا شعاری کا تو منظر بھی دیکھ
چاند تارے گواہ ہیں میری بے بسی کے
زمانہ دیکھ لیا جلتا تو جگر بھی دیکھ
بڑی آزمائش میں ہوں ایک عرصے سے
گزرا کہاں سے میرا تو سفر بھی دیکھ
موت سے کم نہیں ہوتی ہیں راتیں میری
لگے اس دل پر میرے تو خنجر بھی دیکھ
کیوں کر ہے آسیؔ تیری آنکھوں میں خون
اندر نہ دیکھ اے دل ذرا تو باہر بھی دیکھ
✍️آسیؔ عباد الرحمٰن وانی ✍️
Dr. SAGHEER AHMAD SIDDIQUI
10-Dec-2021 02:12 PM
NICE
Reply